نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

فعل مضارع کی اعراب،فعل مضارع کی اعراب کے حالات

 حالات إعراب الفعل المضارع اعلم أنَّ إعراب الفعل المضارع يكون على نوعين:  الأوَّل: المعرب: فيكون على ثلاثة أقسام: المرفوع، المنصوب، والمجزوم.  والثَّاني: المبنيُّ: فيكون على قسمين: نون النسوة، ونون التَّوكيد.                                                                          الفعل المضارع المعرب اعلم أنَّ الفعل المضارع مرفوعٌ يكون على ثلاثة حالات: (أ) إذا يكون الفعل المضارع مرفوعًا على الضمة الظاهرة فيكون على حالة واحدة: 1-إذا كان صحيح الآخر كـ«يكتب» فإعرابه: الفعل المضارع المرفوع وعلامة رفعه الضمة الظاهرة على آخره لأنه صحيح الآخر، والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». (ب) إذا يكون الفعل المضارع مرفوعًا على الضمَّة المقدَّرة فيكون على ثلاثة حالات: 1-إذا كان منع من ظهورها الثقل بـ «و» كـ «يدعو» فإعرابه: الفعل المضارع المرفوع وعلامة رفعه الضمَّة المقدَّرة على آخره منع من ظهورها الثقل ، والفاع...

فعل ماضی کے اعراب، فعل ماضی کے اعراب کے حالات

 حالات إعراب الفعل الماضي اعلم أنَّ إعراب الفعل الماضي يكون مبنيَّا على الفتح أو السُّكون أو الضمِّ. (أ) إذا يكون الفعل الماضي مبنيًّا على الفتح فيكون على أربعة حالاتٍ: 1-إذا لم يتَّصل بآخره شيء كـ«كتب» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتحة الظَّاهرة على آخره والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». 2-إذا اتَّصلت به «تاء التأنيث» كـ«كتبت» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح لاتِّصاله بــ«تاء التأنيث الساكنة» و «التاء» حرف مبنيٌّ على السُّكون لا محلَّ له من الإعراب. 3-إذا اتَّصلت به «الضَّمير» مثلًا «ي» و «نا» و «ه» و «ك» فــ «الياء» كــ «علَّمَنِي» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «ن» نون الوقاية حرف مبنيٌّ على الكسر لا محلَّ له من الإعراب، و «ي» ضمير متَّصل مبنيٌّ على السُّكون في محلِّ النَّصب مفعول به. فــ «نا» كــ «عَلَّمَنا» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «نا» ضمير متَّصل متكلمين مبنيٌّ على السُّكون في محلِّ النَّصب مفعول به. فــ «ه» كــــ «عَلَّمَه» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «ه» ضمير متَّصل مبنيٌّ على الضمِّ في محلِّ النصب مفعول به. فــــ «ك» كـ...

شخص کو قبیلے کی طرف منسوب کرنا

 تحریر  اور موضوع کوئی بھی ہو لیکن اسے لکھنے کے لئے  ہر ایک ایک لفظ کو موتیوں کے مانند پرویا جاتا ہے  علماء اسلاف نے بھی تحریر اور کتابت کے لئے ہر اک چیز کو ملحوظ رکھتے تھے اور ان کے لئے بھی اسلوب وضع کئے اور اسی اسلوب کے تحت  ان کی تحریر و کتابت پائی جاتی ہے  مثال کے طور پہ اگر کسی کو بھی  کسی طرف منسوب کرتے تو پہلے  عام کو ملحوظ رکھا کرتے پہر خاص کو بیان فرماتے  مثلا  محدث مصر شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي متوفی  852 هجری نے أُبيّ بن العباس بن سهل بن سعد کے ترجمہ میں کہا "الأنصاري الساعدي"  تقریب التھذیب الرقم 282  یعنی پہلے انصاری  کی طرف نسبت کی جو کہ  قبیلے کی طرف اشارہ ہے جو کہ عام ہے  پہر اس کے شاخ کو ذکر فرمایا جو کہ ساعدی ہے اور  وہ خاص میں سے ہیں   ہاں کبھی کبھار اس کے عکس بھی کیا کرتے تھے یعنی پہلے خاص کو اور پہر عام کو بیان کرتے  اس کی  کچھ مثالیں تقریب التھذیب میں موجود ہیں  والله أعلم بالصواب

کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے، حاشیہ سے حوالہ دینا کیسا، حوالہ کیسے دیں،

 کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟    کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے   ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے  جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى. اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦) اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود...

محدثین کا اختلاف، جرح و تعديل میں اختلاف کا حل، ایک ہی امام کے ایک راوی میں دو قول

 بسم اللہ الرحمن الرحیم اختلاف المحدثين في الجرح والتعديل الجرح والتعديل ایسا علم ہے جس میں کبھی کبھار ایسی نوعیت آجاتی ہے کہ جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا یے کہ کس عالم کی رائے کو مقدم کیا جائے اورکس عالم کی رائے متاخر کیا جائے کیونکہ دونوں طرف سے ثقہ و متقن امام ہوتے ہیں اورایک ہی راوی کے متعلق مختلف بیان ہوتے ہیں ایک ثقہ تو دوسرا اس کا عکس بتا رہا ہوتا ہے جیسا کہ اس کی مثال اسرائیل بن یونس ہمدانی کوفی اور ابن اسحاق میں واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کسی راوی کے متعلق ائمہ حدیث کا اختلاف ہونا یہ کوئی مضائقہ خیز بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف کا ہونا فقہائے کرام کے اختلاف کے ہونے جیسا ہی ہے.  ائمہ حدیث کے اختلاف کے متعلق امام منذری سے سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء. یعنی ان ائمہ کا اختلاف فقھاء کے اختلاف جیسا ہی ہے. (كتاب جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص 83). اور اسی اختلاف کے سبب حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے میں ائمہ کا اختلاف ہوا ہے اور یہ اختلاف درایہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ روایہ کے اعتبار ...

علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل کا حکم

 «علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل» میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کے طرح ہیں ہماری زباں میں بہت سی احادیث مبارکہ رواں دواں ہوتی ہیں ان میں بہت سے صحیحہ اور بہت سے غیر صحیحہ بلکہ بعض تو موضوع ہوتی ہیں ان میں ایک جو ہمارے ہاں بہت ہی مشہور و معروف ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں «علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل» میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ یہ حدیث اپنے الفاظ کے اعتبار سے موضوع ہے اور اس متن کو بہت سے علماء کرام نے اپنی کتب میں ذکر کرنے کے بعد کلام کیا ہے انھیں آئمہ میں سے 1 امام ابو عبد الله بدر الدين محمد زركشی شافعی متوفى 794ھ نے اپنی کتاب التذكرة فی الأحاديث المشتهرة (1 / 166) میں اس متن کو ذکر کرنے کے بعد کہا لا يعرف له اصل یعنی اس کی اصل نہیں۔ 2 شمس الدين السخاوي متوفى: 902ھ نے المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة (1 / 459) میں کہا کہ قَالَ شَيْخُنَا ومن قبله الدميري والزركشي: إنه لا أصل له، زاد بعضهم: ولا يعرف في كتاب معتبر. یعنی ہمارے شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی اور ان سے پہے امام دمیری اور امام زرکشی نے کہا ہے کہ ا...

ہر بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے

 بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے ،یا یوں کہا جائے کہ ہر شیر کا اپنا الگ میدان ہوتا ہے تو بھی مضائقہ خیز نہ ہوگا ، ایسے بہت سے ائمہ گذرے ہیں جو اپنے تخصص کے اعتبار سے بڑے پائے کے مانے جاتے ہیں، اور دوسری طرف اس طرح کا مرتبہ نہ پا سکے انھیں ائمہ میں سے امام عاصم بھی پائے جاتے ہیں قرائت کے شعبہ میں تو اماموں کے بھی امام ہیں  لیکن حدیث کے معاملہ میں اس قدر توجہ حاصل نہ کرسکے  حتی کہ امام ذہبی نے کہا کہ وہ حدیث میں صدوق کا مرتبہ رکھتے ہیں  اور محمد بن اسحاق تو سیرت کے حوالے سے تو امام ہیں لیکن دوسری کی طرف تو حافظ ابن حجر ان کو صدوق کا مرتبہ دے دیا ۔ ہر شخص کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اور کسی ایک شخص میں تمام صلاحیتیں پائی جائیں ایسا ہونا مستحیل میں سے لگتا ہے  اور ہمیں اپنی کمزوریوں کو قبول کرنا چاہیے اور ان پر کام کرنا چاہیے بھر حال ہر شیر کا اپنا ہی میدان ہوتا ہے  ہمیں بھی چاہئے کہ ہم شیر بنے اور اپنی صلاحیتوں پہ نظر ڈالیں جہاں اپنا سکہ جمتا نظر آئے وہاں دوڑیں چلیں اور دوسرا میدان کسی اور کے لئے خالی چھوڑیں اس میں ہی اپنی بھلائی ہے