نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

محدثین کا اختلاف، جرح و تعديل میں اختلاف کا حل، ایک ہی امام کے ایک راوی میں دو قول

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اختلاف المحدثين في الجرح والتعديل

الجرح والتعديل ایسا علم ہے جس میں کبھی کبھار ایسی نوعیت آجاتی ہے کہ جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا یے کہ کس عالم کی رائے کو مقدم کیا جائے اورکس عالم کی رائے متاخر کیا جائے کیونکہ دونوں طرف سے ثقہ و متقن امام ہوتے ہیں اورایک ہی راوی کے متعلق مختلف بیان ہوتے ہیں ایک ثقہ تو دوسرا اس کا عکس بتا رہا ہوتا ہے

جیسا کہ اس کی مثال اسرائیل بن یونس ہمدانی کوفی اور ابن اسحاق میں واضح دیکھا جا سکتا ہے.

یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کسی راوی کے متعلق ائمہ حدیث کا اختلاف ہونا یہ کوئی مضائقہ خیز بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف کا ہونا فقہائے کرام کے اختلاف کے ہونے جیسا ہی ہے.

 ائمہ حدیث کے اختلاف کے متعلق امام منذری سے سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا

واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء.

یعنی ان ائمہ کا اختلاف فقھاء کے اختلاف جیسا ہی ہے.

(كتاب جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص 83).

اور اسی اختلاف کے سبب حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے میں ائمہ کا اختلاف ہوا ہے اور یہ اختلاف درایہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ روایہ کے اعتبار سے ہے جیسا کہ محمد بن إسماعيل الصنعاني نے (إرشاد النقاد إلى تيسير الاجتهاد ص ١١٠ /١١١) میں اس طرف اشارہ کیا ہے.

  علامہ نورالدين عتر نے اس مسئلہ کے متعلق (منھج النقد في علوم الحديث ص 100) میں لکھتے ہیں جو تصرف کے ساتھ درج ذیل ہے

جرح مقدم ہے اگرچہ معدلین کثیر ہوں کیونکہ کہ معدل ظاہر کے بارے میں خبر دے رہا ہوتا ہے پر جارح باطن کے متعلق بتا رہا ہوتا ہے جو معدل سے پوشیدہ تھی.

اس قاعدہ - کہ جرح تعدیل پہ مقدم ہوگی - کے لئے شروط ہیں اگر وہ شروط پائی گئی تو ہی جرح مقدم ہوگی

1 جرح مفسر ہو

2 جارح متعصب نہ ہو جیسا کہ امام نسائی کا کلام احمد بن صالح مصری کے لئے معتبر نہیں.

3 معدل کی طرف سے جرح کا دفاع نہ کیا گیا ہو

اور کبھی کبھار ایک ہی امام سے ایک ہی راوی کے متعلق دو أقوال مذکور ہوتے ہیں

جیسا کہ ڈاکٹر عبد العزیز نے (ضوابط الجرح والتعديل ص43) میں لکھا ہے جو تصرف کے ساتھ درج ذیل ہیں

اسکی دو صورتیں ہیں

1 پہلے قول سے رجوع ثابت ہونے ہی کی صورت میں دوسرا قول معتبر تصور ہوگا.

2 پہلے قول سے رجوع ثابت نہ ہونے کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ ان دونوں قولوں کا جمع ہونا ممکن ہے یا نہیں؟

أ اگر جمع ہونا ممکن ہے جیسے توثيق يا تضعيف باعتبار نسبی تو جمع کیا جائے گا

ب اگر جمع ہونا نا ممکن ہے تو تو پہر دیکھا جائے گا آیا کوئی قرینہ باعتبار ترجیح موجود ہے یا نہیں؟

أ اگر قرائن موجود ہیں تو دونوں قولوں میں سے ایک راجح اور دوسرا مرجوح ہوگا

ب اگر قرائن موجود نہیں تو پہر وہی قول لیا جائے جو اقوال ائمہ سے قریب ترہو.

اگر ان سب میں سے کچھ بھی میسر نہ ہو تو پہر توقف کیا جائے گا جب تک کوئی سبیل نہیں بن جاتی.


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے، حاشیہ سے حوالہ دینا کیسا، حوالہ کیسے دیں،

 کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟    کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے   ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے  جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى. اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦) اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود...

سندھ کا سلسلہ اسانید

  بسم الله الرحمن الرحيم یہ بات عیاں ہے کہ برصغیر میں اسلام کا پہلا پڑاؤ سرزمین سندھ تھی اور یہاں سے ہوتا ہوا پورے برصغیر میں اسلام کا جھنڈا جگ مگایا بلکہ جگ مگا رہا ہے  بسبب این سرزمین سندھ   کو باب الاسلام کہا جاتا ہے.  یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سرزمین  سندھ  اسلام کی ترجمانی میں اعلی مقام رکھتی ہے چاہے وہ گفت و شنید ہو یا تحریر و تحقیق ہو چاہے کوئی اور میدان ہو لب لباب یہ ہے کہ ہر  محاذ پہ علمائے سندھ نے اسلام کے  آسماں پہ قمر کی طرح جگمگا رہے ہیں.  مذھب اسلام کی ایک خوبصورتی یہ  ہے کہ وہ ہر معاملہ میں سند رکھتا ہے چاہے وہ قرآن ہو یا سنت ہو یا سیرت ہو  حتی کہ کتب کی بھی اسناد پائی جاتی ہے اسناد  کی فضیلت اور اہمیت میں بے شمار اقوال مذکور ہیں جن سب کا احاطہ کرنا اس مختصر رسالے کا موضوع تو نہیں ہے  لیکن ان میں سے کچھ  کو بطور فضیلت موضوع بیان کرنا اس نوشت کی ایک کڑی ہے  مشھور تابعی بزرگ امام محمد بن سیرین رحمه الله( متوفی١١٠)   نے سند کے متعلق کہا  "إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم...