نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سندھ کا سلسلہ اسانید

 

بسم الله الرحمن الرحيم

یہ بات عیاں ہے کہ برصغیر میں اسلام کا پہلا پڑاؤ سرزمین سندھ تھی اور یہاں سے ہوتا ہوا پورے برصغیر میں اسلام کا جھنڈا جگ مگایا بلکہ جگ مگا رہا ہے  بسبب این سرزمین سندھ   کو باب الاسلام کہا جاتا ہے. 
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سرزمین  سندھ  اسلام کی ترجمانی میں اعلی مقام رکھتی ہے چاہے وہ گفت و شنید ہو یا تحریر و تحقیق ہو چاہے کوئی اور میدان ہو
لب لباب یہ ہے کہ ہر  محاذ پہ علمائے سندھ نے اسلام کے  آسماں پہ قمر کی طرح جگمگا رہے ہیں. 
مذھب اسلام کی ایک خوبصورتی یہ  ہے کہ وہ ہر معاملہ میں سند رکھتا ہے چاہے وہ قرآن ہو یا سنت ہو یا سیرت ہو  حتی کہ کتب کی بھی اسناد پائی جاتی ہے
اسناد  کی فضیلت اور اہمیت میں بے شمار اقوال مذکور ہیں جن سب کا احاطہ کرنا اس مختصر رسالے کا موضوع تو نہیں ہے  لیکن ان میں سے کچھ  کو بطور فضیلت موضوع بیان کرنا اس نوشت کی ایک کڑی ہے 
مشھور تابعی بزرگ امام محمد بن سیرین رحمه الله( متوفی١١٠)   نے سند کے متعلق کہا 
"إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم" .
یعنی یہ علم دین ہے پہر تم دیکھو یہ  کس سے لے رہے ہو 
( صحيح مسلم ت عبد الباقي - باب بيان أن الإسناد من الدين  ص ١٤). 
امام رحمه اللہ کے قول کا لب لباب یہی ہے کہ سند کی طرف نظر کی جائے کہ وہ کس شخصیت پہ قائم ہے آیا وہ ثقہ ہیں یا ضعیف ہیں  یعنی سند کو پرکھا جائے آیا وہ مقبول میں سے ہے یا مردود میں سے ہے، اور سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کی مفتاح ہے، اور سند کے صحیح ہونے کے درجات ہیں کچھ فقط صحیح ہوتے ہیں اور کچھ أصح ہوتے ہیں اور سلسلہ ذهبيہ بھی بسنت اولی أصح الأسانيد ہی  ہے. 
 أصح الأسانيد تین طرح کے  ہیں
 1 أصح الأسانيد مطلقا. 
2 أصح الأسانيد بالنسبة إلى صحابي معين. 
3 أصح الأسانيد لبلد معين. 
ہمارا موضوع  اسی  قسم ثالث پہ محور طواف ہے، جو سرزمین سندھ کے علماء کے ہان بہت مقبول ہے اس کی وجہ یہ کے کہ علمائے سندھ کے ہاں جو اسناد پائی جاتی ہے ان میں خاص بات یہ ہے ان کے اندر نہ کوئی گستاخ صحابہ پایا جاتا ہے اور نہ گستاخ اولیاء پایا جاتا ہے بلکہ ہر اک راوی اپنے اپنےاپنے سینے  کے اندر محبت صحابہ و اھل بیت کے شمع روشن کرتے ہوئے  بارگاہ خداوندی  کی طرف روانہ ہوئے. 
سندھ کے سلسلہ اسانید کے موتیوں کی لڑی حضرت مفتی صاحبداد رحمه الله سے راحت عنبر نکھارتے ہوئے شاہ عبد الحق محدث دھلوی سے جاکر ملتی ہے 

جن کے اسمائے گراموں کی لڑی کچھ یوں ہے 
مفتي محمد صاحبداد خان بن خميسو خان السندي، عن محمد قاسم بن محمد هاشم السندي الحنفي، عن والده محمد هاشم السندي الحنفي، عن نور محمد بن ميا غلام محمد الفاروقي السندي الحنفي، عن الخليفة محمد يعقوب الهمايوني السندي، عن أستاذ الكل  عبد الحليم الكندوي السندي الحنفي، عن السيد الشريف محمد عاقل السندي الحنفي، عن المخدوم نور محمد المشهور بمحدث محمد العاريجوي السندي الحنفي، عن قل أحمد، عن أبيه عبد الله اللبيب بن عبد الحكيم السيالكوتي، عن والده العلامة عبد الحكيم بن شمس الدين السيالكوتي، عن محدث الهند عبد الحق بن سيف الله الدهلوي.
) ذكر إجازات الحديث في القديم والحديث ص ٩٧/ ٩٨بتصرف). 

ان جگمگاتے ہوئے بعض موتیوں کی مختصر سوانح حیات بحسب تربیت   بنیت حصول برکت پیش خدمت ہے 

١ علامہ مفتی محمد صاحبداد خان بن خميسو خان جمالی  بلوچستان میں ١٣١٦ھ کو تولد ہوئے اور  ١٣٨٥ ھ کو وصال فرما گئے۔
آپ رحمه الله عربی ، فارسی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد یوسف   سے حاصل کی. 
بعد ازاں حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یا سینی رحمه الله ( متوفی ۱۳۴۹ھ)  کے ہاں  ۱٣٣٦ ھ کو فارغ التحصیل ہوئے.
(انوار علمائے اھلسنت سندھ ص ٣٦٥ بتصرف). 

٢ مفتی محمد قاسم یا سینی بن  علامہ محمد باشم یا سینی ۱۳۰۵ھ پیدا ہوئے اور آپ رحمه الله ١٣٤٩ھ کو وصال فرما گئے
مفتی محمد قاسم رحمه الله نے اپنے والد ماجد علامہ محمد ہاشم یا سینی کے پاس درس نظامی کو مکمل فرمایا اور   فتوی نویسی کی تعلیم  مفتی عبد الغفور همایونی رحمه الله سے حاصل کی. 
(المرجع السابق ص ٨٠٢ بتصرف). 

٣ مفتی محمد ہاشم بن محمد بخش  ۱۳۵۹ھ کو پیدا ہوئے 
آپ رحمه الله نے حضرت علامہ نور محمد شهداد کوٹی قدس سرہ کے ہاں فارغ التحصیل ہوئے 
آپ مدرس کے ساتھ ساتھ مناظر بھی تھے 
آپ رحمه الله کی فقاہت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ فقہ کی مشھور و معروف کتاب ہدایہ شریف پہ کافی دسترس رکھتے تھے حتی کہ فارغ التحصیل علمائے کرام بھی آپ کے ہاں بارہا درس لیا کرتے تھے 
آپ رحمه الله ١٠ شوال  ١٣٢٢ھ کو بارگاہ خداوندی کی طرف روانہ ہوئے
( المرجع السابق ص ٨٢٥ بتصرف ). 

٤ علامہ نورمحمد شہدادکوٹی بن مولانا میاں غلام محمد فاروقی  ١٢٠٦ھ کو گوٹھ کنڈا ضلع کچھی بلوچستان میں پیدا ہوئے اور نوے سال کی عمر میں ١٢٩٦ ھ وصال فرماگئے
آپ رحمه الله اپنے والد ماجد سے اور مدرسہ کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد الحلیم کنڈوی سے دینی تعلیم حاصل کی
آپ رحمه الله بے شمار تصانیف کے مالک ہیں 
جن میں حاشیہ بیضاوی اور حاشیہ ھدایہ شریف سر فہرست ہیں
(المرجع السابق ص ٩٦٥بتصرف).

٥ حضرت علامہ خلیفہ محمد یعقوب بن محمد مبارک ریاست قلات کے گوٹھ " جھٹ " میں پیدا ہوئے اور ١٢٧٣ ھ کو وصال فرما گئے 
آپ رحمه الله نے  بحر العلوم علامہ عبدالحلیم کنڈوی رحمه الله  سے ان کے گوٹھ کنڈی بھاگ ناڑی ریاست قلات میں تعلیم حاصل کی اور آپ  رحمه الله علامہ کنڈوی رحمه الله کے ابتدائی شاگردوں میں سے ہیں
(المرجع السابق ص ٧٧٣ بتصرف).

٦ حضرت علامہ  عبدالحلیم کنڈوی گوٹھ کنڈی بلوچستان میں پیدا ہوئے اور ١٢٥٤ ھ کو وصال فرما گئے 
آپ رحمه الله نے حافظ نور محمد بھاگ ناڑی کے پاس قرآن پاک حفظ کیا   اور  ابتدائی تعلیم کافیہ تک ریاست قلات کے شہر میر پور  کے مشہور عالم دین قاضی محمد ابراہیم میر پوری رحمه سے حاصل کی بقیہ تعلیم  سید محمد عاقل شاہ ہالانی والے کے ہاں مکمل فرمائی
(المرجع السابق ص ٤٥٢ بتصرف).

٧ علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری  ہالانی تحصیل کنڈ یارو ضلع نوشہرو فیروز میں پیدا  ہوئے اورابتدائی تعلیم ہالانی میں حاصل کی اس کے بعد کوٹری کبیر میں حضرت مخدوم یار محمد صدیقی کے ہاں  تعلیم حاصل کی

 جب امام العارفین حضرت سائیں روضے دھنی رحمه الله گوٹھ خیر محمد عاریجہ میں حضرت مولانا محمد عاریجوی رحمه الله کے ہاں زیر تعلیم تھے 
تو آپ رحمه الله حضرت  سائیں روضے دہنی رحمه الله کے ہم درس تھے
( المرجع السابق ص ٤١٩ بتصرف).

٨ حضرت علامہ مخدوم نور محمد عرف مخدوم محمد آریجوی یا عاریجوی تحصیل سری ضلع لاڑکانہ میں ۱۱۳۰ھ کو پیدا  ہوئے اور ١٢١٠ھ کو وصال فرما گئے 

آپ رحمه الله نے ابتدائی تعلیم آبائی گوٹھ کے مدرسہ میں حاصل کی بعد ازاں  علامہ شیخ ابن یامین رحمه الله مالی کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں ہی  فارغ التحصیل ہوئے 
آپ رحمه الله  کے تلامذہ میں سے حضرت سید روضے دہنی رحمه الله کا نام سر فہرست ہے 
( المرجع السابق ص ٩٦٨ بتصرف).
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان حضرات رحمهم الله کے طفیل ہمیں دین و متین کی ڈھیر ساری خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاه النبي الكريم صلی اللہ عليه وسلم

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے، حاشیہ سے حوالہ دینا کیسا، حوالہ کیسے دیں،

 کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟    کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے   ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے  جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى. اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦) اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود...

محدثین کا اختلاف، جرح و تعديل میں اختلاف کا حل، ایک ہی امام کے ایک راوی میں دو قول

 بسم اللہ الرحمن الرحیم اختلاف المحدثين في الجرح والتعديل الجرح والتعديل ایسا علم ہے جس میں کبھی کبھار ایسی نوعیت آجاتی ہے کہ جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا یے کہ کس عالم کی رائے کو مقدم کیا جائے اورکس عالم کی رائے متاخر کیا جائے کیونکہ دونوں طرف سے ثقہ و متقن امام ہوتے ہیں اورایک ہی راوی کے متعلق مختلف بیان ہوتے ہیں ایک ثقہ تو دوسرا اس کا عکس بتا رہا ہوتا ہے جیسا کہ اس کی مثال اسرائیل بن یونس ہمدانی کوفی اور ابن اسحاق میں واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کسی راوی کے متعلق ائمہ حدیث کا اختلاف ہونا یہ کوئی مضائقہ خیز بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف کا ہونا فقہائے کرام کے اختلاف کے ہونے جیسا ہی ہے.  ائمہ حدیث کے اختلاف کے متعلق امام منذری سے سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء. یعنی ان ائمہ کا اختلاف فقھاء کے اختلاف جیسا ہی ہے. (كتاب جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص 83). اور اسی اختلاف کے سبب حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے میں ائمہ کا اختلاف ہوا ہے اور یہ اختلاف درایہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ روایہ کے اعتبار ...