نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

التحقيق لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مفتی عبد الغفور ھمایونی اور اعلی حضرت

```آیا آپ کو معلوم ہے مفتی عبد الغفور ہمایونی رحمه الله کے فتاوی کا تذکرہ فتاوی رضویہ میں بھی موجود ہے؟ جی ہاں آپ کو مفتی عبد الغفور ہمایونی رحمه الله کا تذکرہ فتاوى رضویہ شریف میں بھی نظر آئے گا  بظاہر اعلی حضرت نے مفتی رحمه الله کے فتاوی کی موافقت تو نہیں کی بہر حال آپ کا تذکرہ اعلی حضرت کے زمانے میں بھی ہوتا رہا ہے  فتاوی ہمایونی اپنے انداز سے ایک بہترین کتب میں سے ہے  خاص طور پہ مقدمہ میں اصول فقہ کے موضوع کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے  ( اگر اجازت میسر ہو جائے تو اس مقدمہ کو بہترین انداز میں pdf کے طور پہ نشر کیا جاسکتا ہے)  المھم ہمارے سندھ کے علماء کی خدمات تو بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کے ساتھ صندوق کے پیش نظر ہوچکی ہیں جو کچھ ظاہر ہے اس کے حصول کے لئے پاک و ھند کے محققین کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی پیش نظر آتے ہیں   اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کے کتب کی خدمت کی سعادت نصیب فرمائے  آمین``` ملاحظہ فرمائیں  1فتاوی رضویہ ج ٨ ص 27 2 فتاوی رضویہ ج 26 ص 380 تقریبا کتاب میسر نہ ہونے کے سبب صفحات آگے پیچھے ہو سکتے ہیں

مفتی اشرف قادری رحمه الله

  حضور قبلہ مفتی اشرف قادری رحمه الله  جیسی شخصیت پاکستان میں نہیں ملتی آپ ایک بھترین فقیہ اور شیخ الحدیث تھے  حضور کا نام مبارک سنہ 2015 یا 14 سے سنا تھا  اور اسی دن سے ہی حضور کے بیانات کو خاص کر فقہ کے مسائل کو حضور کے فیس بوک پیچ( جو Mufti Ashraf -ul-Qadri  کے نام سے تھا) پہ سننے کا شرف ملا تھا اور مجھے یاد ہے کہ جو پہلا مسئلہ حضور سے سننے کا شرف ملا تھا وہ  اعتکاف کی حالت میں غسل کرنا تھا  حضور وہ واحد شخصیت ہیں جس سے ملنے کی حسرت حسرت ہی رہ گئی ہے  حضور والا سے ملنے کے غرض سے تقریبا آپ کی وفات دو یا تین سال برس قبل آپ کے مدرسہ جو گجرات( میں خوشبوئے مصطفی پہیلا رہا ہے ) میں ہے ملاقات کے غرض سے جانا ہوا تھا لیکن زہے نصیب ملاقات نہ ہوسکی تھی بس مفتی احمد یار خان نعیمی رحمه الله کی مزار پہ حاضری نصیب ہوئی تھی جو آپ کے مدرسہ کے قریب ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ جامعہ کے لئے گجرات( کے بائے پاس کے قریب ہے شاید ) میں زمین حاصل کرلی تھی یا حاصل کرنے میں مگن تھے حضور سے بے پناہ محبت و عقیدت ہے  اللہ تعالی سے دعا ہے اللہ تعالی ہمیں بھی صالحین م...

سطر پر مشتمل سخن

  کبھی کبھار ایک سطر پر مشتمل سخن، زیورِ بیان سے آراستہ ہوتی ہے جو دیکھنے میں موتی کی مانند اور معنی میں شہد کی مثل محسوس ہوتی ہے۔   لیکن اس سخن کو لکھنے کے لئے کاتب کی کئی سالوں کی جھد لگن و محنت پس پردہ  بے جو بے زبان ہو کر بھی بہت کچھ کہہ رہی ہوتی ہے جس کا یہ نچوڑ یا یوں کہا جائے کہ اس کی اس جھد کا نتیجہ یہ مختصر سخن پر محو طواف ہوتا ہے  اپنی کئی سالوں کی محنت وجھد کو کسی ایک سطر محو طواف موتی کے مانند جملہ کو پروننا یہ ایک الگ فن ہے صاحب فن ہی اس کو سمجھتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ «صاحب البيت أدرى بما فيه» خیر جو تصویر میں عبارت نظر آ رہی ہے وہی اس مختصر کی گفتگو کی کڑی ہے  اگر کوئی غیر ذوق شخص دیکھے تو کہ دے یہ تو محض ایک سطر ہے اس میں کوئی جھد عیاں نہیں  ویسے یہ کلام درست ہے اگر ایک جہت کی طرف دیکھا جائے تو بظاہر یہ مختصر لگ رہی ہے لیکن اس کی اہمیت قدر و قیمت کسی طالب حدیث سے بڑھ کر کوئی نہ جان سکتا ہے نہ پہنچ سکتا ہے  اس لئے تو کہا جاتا « ہر بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے» وہ اس کی حقیقت کو اور اھمیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے

چیٹ جی پی ٹی اور باحث

 چیٹ جی پی ٹی کی دنیا ایک کھلے ہوئے سمندر کے مانند ہے لیکن اس کو حرف آخر سمجھنا اندھے اعتماد کے مترادف ہے  ان کی عبارت کو  پرکھنے کے بعد ہی قابل اعتماد سمجھا جا سکتا ہے ، موصوف کی ان گنت عادتوں میں سے ایک  عادت یہ  بھی ہے کہ وہ مسئلہ کی عبارت  اپنی طرف سے وضع کرنے  کے بعد کتاب جلد حتی کہ صفحہ نمبر بھی تحریر کر دیتا ہے  اور جب آپ کتاب کی طرف رجوع کریں گے تو صفحہ نمبر تو دور کی بات ہے وہ عبارت بھی رد وبدل کے بعد بھی نہ پائیں گے  جس کا تجربہ راقم کافی عرصہ قبل کرچکا تھا ،گذشتہ کل بھی کسی دوست کے توسط سے دوبارہ پالا پڑا لیکن آنحضرت کی عادت وہی کی وہی ٹہری

اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا فائدہ

 اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا فائدہ  امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھتے ہیں  "وما رواه أبو نعيم في الحلية بسند فيه مجاهيل أن جبريل نادى بالأذان لآدم حين أهبط من الجنة". فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب بدء الأذان، ج ٢، ص ١٣٧. ایک تو آپ حلیہ کی طرف رجوع کریں گے تو مذکورہ  الفاظ نہیں پائیں گے  دوسرا علمی فایدہ یہ بھی ہے کہ امام ابن حجر نے  مغز  روایت کو بیان کیا ہے فقط  لیکن اصل کی طرف رجوع کرنے کے  بہت سے فوائد ہیں  جیسے حضرت آدم علیہ السلام کا ھند میں اترنا وغیرہ  آپ حلیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں  عن أبي هريرة قال قال رسول الله ﷺ: «نزل آدم بالهند فاستوحش، فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله. فقال له: ومن محمد هذا؟ فقال هذا آخر ولدك من الأنبياء. (ج 5، ص 107)

شخص کو قبیلے کی طرف منسوب کرنا

 تحریر  اور موضوع کوئی بھی ہو لیکن اسے لکھنے کے لئے  ہر ایک ایک لفظ کو موتیوں کے مانند پرویا جاتا ہے  علماء اسلاف نے بھی تحریر اور کتابت کے لئے ہر اک چیز کو ملحوظ رکھتے تھے اور ان کے لئے بھی اسلوب وضع کئے اور اسی اسلوب کے تحت  ان کی تحریر و کتابت پائی جاتی ہے  مثال کے طور پہ اگر کسی کو بھی  کسی طرف منسوب کرتے تو پہلے  عام کو ملحوظ رکھا کرتے پہر خاص کو بیان فرماتے  مثلا  محدث مصر شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي متوفی  852 هجری نے أُبيّ بن العباس بن سهل بن سعد کے ترجمہ میں کہا "الأنصاري الساعدي"  تقریب التھذیب الرقم 282  یعنی پہلے انصاری  کی طرف نسبت کی جو کہ  قبیلے کی طرف اشارہ ہے جو کہ عام ہے  پہر اس کے شاخ کو ذکر فرمایا جو کہ ساعدی ہے اور  وہ خاص میں سے ہیں   ہاں کبھی کبھار اس کے عکس بھی کیا کرتے تھے یعنی پہلے خاص کو اور پہر عام کو بیان کرتے  اس کی  کچھ مثالیں تقریب التھذیب میں موجود ہیں  والله أعلم بالصواب

کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے، حاشیہ سے حوالہ دینا کیسا، حوالہ کیسے دیں،

 کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟    کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے   ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے  جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى. اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦) اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود...

مواقع النجوم

 #مواقع_النجوم_کا_مختصر_تعارف آج میں آپ کی خدمت میں  جس کتاب  مختصر تعارف پیش کر رہا ہوں وہ کتاب بڑے شان والی ہے  اور کیوں نہ ہو کہ ان کے مصنف بھی تو کمال والے ہیں  جسے صوفیاء  ادب سے شیخ اکبر  کہتے ہیں    اور وہ ہیں  #شیخ_محى_الدین_محمد_بن_على_بن_محمد_بن_العربی_الطائى_الحاتمى_رحمه_الله یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شیخ اکبر رحمه الله   تصانیف کثیره  کے مالک ہیں  ان میں سے ایک کتاب  #مواقع_النجوم بھی ہے    کتاب مذکور میں  تین مراتب ہیں  پہلا #العناية ہے جو توفیق ہے دوسرا #هداية ہے جو علم تحقیق ہے  تیسرا #الولاية ہے جو مقام صدیق کی طرف پہنچاتا ہے  یہ ہے ان کا مختصر تعارف  ان شاء اللہ عزوجل جلد ہی مکمل خلاصہ بہی عرض کرنے کی نیت رکھتا ہوں دعا فرمائیں اللہ تعالی لکھنے کی سعادت عطا فرمائے  عبدالمصطفی_العجمی