کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟
کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے
یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے
ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے
جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں
وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى.
اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے
ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦)
اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود ہے اس کو نقل کرتے ہوئے الجوهرة النيرة کا حوالہ پیش کرے تو یہ حوالہ کتابت کے آداب کے بر خلاف ہے. لابد أصل کتاب کی طرف رجوع کیا جائے اور اصل کتاب سے ہی الفاظ کو أخذ کیا جائے.
بعض اوقات تو بعض محققین خواب عالم میں کتب کی تحقیق کرتے رہتے ہیں
جیسا کہ ایک محقق صاحب نے (كتاب أخلاق النبي وآدابه ص 122 دار الكتاب العربي 1986م) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں
عن أنس بن مالك : أن سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم كان حنفياً ، وكان قبيعته من فضة .
“حنفیا" کے حاشیہ پہ لکھتے ہیں کہ " نسبة إلى الإمام أبي حنيفة النعمان".
تصوير كو ملاحظہ فرمائیں
ہر ایک محقق قابل اعتماد نہیں ہوتا بعض محققین سے بیس سے بھی زیادہ غلطیاں ایک ہی کتاب میں سرزد ہوئی ہیں
جیسا کہ عبد الفتاح أبو غدة نے محقق فریوائی کی (جواب الحافظ أبي محمد عبد العظيم المنذري المصري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص 6) پہ 30 سے زیادہ غلطیاں گنوائی ہیں.
اس لیے علماء محققین نے حوالہ جات نقل کرتے وقت اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے پہ تاکید کی ہے اور یہی اصح اور قابل اعتماد طریقہ و اسلوب ہے
https://amzn.to/3Excexb
بہت خوب ،
جواب دیںحذف کریں