نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

الطبقة لاتخلو من متشدد ومتوسط في الجرح

 الطبقة لاتخلو من متشدد ومتوسط في الجرح ١ شعبة والثوري وشعبة أشد من الثوري  ٢ القطان وابن مهدي والقطان أشد من ابن مهدي  ٣ابن معين والإمام أحمد وابن معين أشد من الإمام أحمد  ٤ أبو حاتم والبخاري وأبو حاتم أشد من البخاري

صحاح ستہ کے شیعہ راوی پر مختصر تجزیہ

 یہ مسئلہ نیا نہیں ہے ، جیسا شور کیا گیا ہے لیکن در اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی عوام کو اس جیسے مسائل سے آگاہ نہیں کرتے، جیسے ہی عوام اھلسنت مبتدع سے ایسی روایت اور مسائل سنتے ہیں تو ڈگمگا جاتے ہیں، اس میں عوام اھلسنت کا نہیں بلکہ علماء کا ہی قصور ہے جو عوام کو آگاہ نہیں کرتے ، اگر ہم پہلے ہی اپنی عوام کو اھلسنت کے اصول سے آگاہ کرتے تو یہاں تک نوبت نہ پہنچتی اور نہ ہی ایسی باتیں عوام اھلسنت میں انتشار کا باعث بنتی ، اور ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ شیعوں سے روایت لی گئی ہیں ، لیکن وہ غالی نہیں تھے ، اور ان مبتدع سے روایت لینے کے متعلق امام ذھبی نے أبان الكوفي کے ترجمہ میں میزان الاعتدال میں توضیح کی ہے اور امام جلال الدین سیوطی نے تدریب الراوی میں بھی اس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے  تو ہمیں چاہئے کہ اس پر فتن دور میں ہم اپنی عوام کو اھلسنت کے اصول اور مسائل سے آگاہ کریں اور یہی ہماری ذمہ داری ہے  والله أعلم بالصواب

مفتی عبد الغفور ھمایونی اور اعلی حضرت

```آیا آپ کو معلوم ہے مفتی عبد الغفور ہمایونی رحمه الله کے فتاوی کا تذکرہ فتاوی رضویہ میں بھی موجود ہے؟ جی ہاں آپ کو مفتی عبد الغفور ہمایونی رحمه الله کا تذکرہ فتاوى رضویہ شریف میں بھی نظر آئے گا  بظاہر اعلی حضرت نے مفتی رحمه الله کے فتاوی کی موافقت تو نہیں کی بہر حال آپ کا تذکرہ اعلی حضرت کے زمانے میں بھی ہوتا رہا ہے  فتاوی ہمایونی اپنے انداز سے ایک بہترین کتب میں سے ہے  خاص طور پہ مقدمہ میں اصول فقہ کے موضوع کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے  ( اگر اجازت میسر ہو جائے تو اس مقدمہ کو بہترین انداز میں pdf کے طور پہ نشر کیا جاسکتا ہے)  المھم ہمارے سندھ کے علماء کی خدمات تو بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کے ساتھ صندوق کے پیش نظر ہوچکی ہیں جو کچھ ظاہر ہے اس کے حصول کے لئے پاک و ھند کے محققین کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی پیش نظر آتے ہیں   اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کے کتب کی خدمت کی سعادت نصیب فرمائے  آمین``` ملاحظہ فرمائیں  1فتاوی رضویہ ج ٨ ص 27 2 فتاوی رضویہ ج 26 ص 380 تقریبا کتاب میسر نہ ہونے کے سبب صفحات آگے پیچھے ہو سکتے ہیں

مفتی اشرف قادری رحمه الله

  حضور قبلہ مفتی اشرف قادری رحمه الله  جیسی شخصیت پاکستان میں نہیں ملتی آپ ایک بھترین فقیہ اور شیخ الحدیث تھے  حضور کا نام مبارک سنہ 2015 یا 14 سے سنا تھا  اور اسی دن سے ہی حضور کے بیانات کو خاص کر فقہ کے مسائل کو حضور کے فیس بوک پیچ( جو Mufti Ashraf -ul-Qadri  کے نام سے تھا) پہ سننے کا شرف ملا تھا اور مجھے یاد ہے کہ جو پہلا مسئلہ حضور سے سننے کا شرف ملا تھا وہ  اعتکاف کی حالت میں غسل کرنا تھا  حضور وہ واحد شخصیت ہیں جس سے ملنے کی حسرت حسرت ہی رہ گئی ہے  حضور والا سے ملنے کے غرض سے تقریبا آپ کی وفات دو یا تین سال برس قبل آپ کے مدرسہ جو گجرات( میں خوشبوئے مصطفی پہیلا رہا ہے ) میں ہے ملاقات کے غرض سے جانا ہوا تھا لیکن زہے نصیب ملاقات نہ ہوسکی تھی بس مفتی احمد یار خان نعیمی رحمه الله کی مزار پہ حاضری نصیب ہوئی تھی جو آپ کے مدرسہ کے قریب ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ جامعہ کے لئے گجرات( کے بائے پاس کے قریب ہے شاید ) میں زمین حاصل کرلی تھی یا حاصل کرنے میں مگن تھے حضور سے بے پناہ محبت و عقیدت ہے  اللہ تعالی سے دعا ہے اللہ تعالی ہمیں بھی صالحین م...

سطر پر مشتمل سخن

  کبھی کبھار ایک سطر پر مشتمل سخن، زیورِ بیان سے آراستہ ہوتی ہے جو دیکھنے میں موتی کی مانند اور معنی میں شہد کی مثل محسوس ہوتی ہے۔   لیکن اس سخن کو لکھنے کے لئے کاتب کی کئی سالوں کی جھد لگن و محنت پس پردہ  بے جو بے زبان ہو کر بھی بہت کچھ کہہ رہی ہوتی ہے جس کا یہ نچوڑ یا یوں کہا جائے کہ اس کی اس جھد کا نتیجہ یہ مختصر سخن پر محو طواف ہوتا ہے  اپنی کئی سالوں کی محنت وجھد کو کسی ایک سطر محو طواف موتی کے مانند جملہ کو پروننا یہ ایک الگ فن ہے صاحب فن ہی اس کو سمجھتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ «صاحب البيت أدرى بما فيه» خیر جو تصویر میں عبارت نظر آ رہی ہے وہی اس مختصر کی گفتگو کی کڑی ہے  اگر کوئی غیر ذوق شخص دیکھے تو کہ دے یہ تو محض ایک سطر ہے اس میں کوئی جھد عیاں نہیں  ویسے یہ کلام درست ہے اگر ایک جہت کی طرف دیکھا جائے تو بظاہر یہ مختصر لگ رہی ہے لیکن اس کی اہمیت قدر و قیمت کسی طالب حدیث سے بڑھ کر کوئی نہ جان سکتا ہے نہ پہنچ سکتا ہے  اس لئے تو کہا جاتا « ہر بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے» وہ اس کی حقیقت کو اور اھمیت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے

چیٹ جی پی ٹی اور باحث

 چیٹ جی پی ٹی کی دنیا ایک کھلے ہوئے سمندر کے مانند ہے لیکن اس کو حرف آخر سمجھنا اندھے اعتماد کے مترادف ہے  ان کی عبارت کو  پرکھنے کے بعد ہی قابل اعتماد سمجھا جا سکتا ہے ، موصوف کی ان گنت عادتوں میں سے ایک  عادت یہ  بھی ہے کہ وہ مسئلہ کی عبارت  اپنی طرف سے وضع کرنے  کے بعد کتاب جلد حتی کہ صفحہ نمبر بھی تحریر کر دیتا ہے  اور جب آپ کتاب کی طرف رجوع کریں گے تو صفحہ نمبر تو دور کی بات ہے وہ عبارت بھی رد وبدل کے بعد بھی نہ پائیں گے  جس کا تجربہ راقم کافی عرصہ قبل کرچکا تھا ،گذشتہ کل بھی کسی دوست کے توسط سے دوبارہ پالا پڑا لیکن آنحضرت کی عادت وہی کی وہی ٹہری

اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا فائدہ

 اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے کا فائدہ  امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھتے ہیں  "وما رواه أبو نعيم في الحلية بسند فيه مجاهيل أن جبريل نادى بالأذان لآدم حين أهبط من الجنة". فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب بدء الأذان، ج ٢، ص ١٣٧. ایک تو آپ حلیہ کی طرف رجوع کریں گے تو مذکورہ  الفاظ نہیں پائیں گے  دوسرا علمی فایدہ یہ بھی ہے کہ امام ابن حجر نے  مغز  روایت کو بیان کیا ہے فقط  لیکن اصل کی طرف رجوع کرنے کے  بہت سے فوائد ہیں  جیسے حضرت آدم علیہ السلام کا ھند میں اترنا وغیرہ  آپ حلیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں  عن أبي هريرة قال قال رسول الله ﷺ: «نزل آدم بالهند فاستوحش، فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله. فقال له: ومن محمد هذا؟ فقال هذا آخر ولدك من الأنبياء. (ج 5، ص 107)

حضرت بلال رضي الله عنه کا اذان نہ دینے سے سورج کا طلوع نہ ہونا

https://www.facebook.com/share/r/15UzkLWhoe/ ایسا کسی صحیح  حدیث سے ثابت نہیں  ہے، اور نہ ہی اس کی اصل ہے بس لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہے  جس کا   اصل سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایسی روایات کو نشر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تنبیہ کے ساتھ عوام اھلسنت کو آگاہ کیا جائے کہ وہ ایسی روایات  سے خود بھی بچیں اور اپنی اولاد کو بھی پند و نصیحت کریں کہ ایسی کوئی روایات سامنے آجائے تو فورا علماء کی طرف رجوع کرنے کی عادت بنا لی جائے تو اس میں بھلائی ہے   اس حوالہ سے دو دلیل عرض خدمت ہیں  ١  ابن کثیر نے کہا  وكان من أفصح الناس لا كما يعتقده بعض الناس أن سينه كانت شينا، حتى أن بعض الناس يروى حديثا في ذلك لا أصل له -------- ص333 - كتاب البداية والنهاية ط السعادة - فصل وأما خدامه ﵇ ورضى الله عنهم الذين خدموه من الصحابة من غير مواليه فمنهم أنس بن مالك - المكتبة الشاملة ٢ قال الحافظ جمال الدين المزي اشتهر على ألسنة العوام ان بلالا رضي الله عنه كان يبدل الشين في الآذان سينا ولم نره في شيء من الكتب كذا وجدته عنه بخط الشيخ برهان الدين السفاقسي -------- ص208 - كتا...

سندھ کا سلسلہ اسانید

  بسم الله الرحمن الرحيم یہ بات عیاں ہے کہ برصغیر میں اسلام کا پہلا پڑاؤ سرزمین سندھ تھی اور یہاں سے ہوتا ہوا پورے برصغیر میں اسلام کا جھنڈا جگ مگایا بلکہ جگ مگا رہا ہے  بسبب این سرزمین سندھ   کو باب الاسلام کہا جاتا ہے.  یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سرزمین  سندھ  اسلام کی ترجمانی میں اعلی مقام رکھتی ہے چاہے وہ گفت و شنید ہو یا تحریر و تحقیق ہو چاہے کوئی اور میدان ہو لب لباب یہ ہے کہ ہر  محاذ پہ علمائے سندھ نے اسلام کے  آسماں پہ قمر کی طرح جگمگا رہے ہیں.  مذھب اسلام کی ایک خوبصورتی یہ  ہے کہ وہ ہر معاملہ میں سند رکھتا ہے چاہے وہ قرآن ہو یا سنت ہو یا سیرت ہو  حتی کہ کتب کی بھی اسناد پائی جاتی ہے اسناد  کی فضیلت اور اہمیت میں بے شمار اقوال مذکور ہیں جن سب کا احاطہ کرنا اس مختصر رسالے کا موضوع تو نہیں ہے  لیکن ان میں سے کچھ  کو بطور فضیلت موضوع بیان کرنا اس نوشت کی ایک کڑی ہے  مشھور تابعی بزرگ امام محمد بن سیرین رحمه الله( متوفی١١٠)   نے سند کے متعلق کہا  "إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم...

جس مسجد میں پنجگانہ نماز نہ ہوتی ہو وہاں جمعہ قائم کرنا

 *جس مسجد میں پنجگانہ نماز جماعت سے نہ ہوتی ہو کیا وہاں پہ جمعہ ہوسکتا ہے*  اگر جمعہ کے تمام شرائط پائی جاتی ہوں تو وہاں جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے اگرچہ پنجگانہ نماز نہ ہوتی ہو کیونکہ پنجگانہ نماز کا ہونا یہ جمعہ کی شرائط میں سے نہیں ہے  بدائع الصنائع میں ہے  وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت. (كتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - فصل بيان شرائط الجمعة ص 258) امام کاسانی رحمه الله نے اس مقام پہ جمعہ کی شرائط ذکر فرمائی لیکن پنجگانہ نماز کا شرائط میں ذکر نہیں فرمایا  اور علامہ ابن الهمام الحنفي رحمہ اللہ نے بھی پنجگانہ نماز کو جمعہ کی شرائط میں ذکر نہیں فرمایا  وشرائط في غيره: المصر، والجماعة، والخطبة، والسلطان، والوقت، والإذن العام۔ ( كتاب فتح القدير باب صلاة الجمعة - ص 50)

اطْلُبُوا العِلْمَ وَلَو بِالصِّينِ کی تحقیق

 أخرج البيهقي في شعب الإيمان (3/193) رقم الحديث (1543)،  قال: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ،(1) أخبرنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ الشَّيْبَانِيُّ،(2) حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ،(3) ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ،(4) أخبرنا أَبُو سَعِيدِ بْنُ زِيَادٍ،(5) حدثنا جَعْفَرُ بْنُ عَامِرٍ الْعَسْكَرِيُّ،(6) قَالَا: حدثنا الحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ،(7) عَنْ أَبِي عَاتِكَةَ، - وَفِي رِوَايَةِ أَبِي عَبدِ اللهِ - حدثنا أَبُو عَاتِكَةَ،(8) عَن أَنَسِ بْن مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اطْلُبُوا العِلْمَ وَلَو بِالصِّينِ، فَإِنَّ طَلَبَ العِلمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ». حديث ضعيف بهذا الاسناد. ( 1) هو مُحَمَّد بن عبد الله بن مُحَمَّد بن حَمْدَوَيْه الضَّبِّيّ النَّيْسَابُورِي الحَافِظ أَبُو عبد الله الحاكم المعروف بابن البيع، صاحب المستدرك. قال الخطيب في «تاريخ بغداد» (3 / 509): كان ثقة. قال ابن حجر العسقلاني في «لسان الميزان» (5 / 233): إمام صدوق. (2) هو علي بن محمد بن م...

فعل امر کی ترکیب

 حالات إعراب الفعل الأمر اعلم أنَّ إعراب الفعل الأمر يكون مبنيًا دائمًا  فيكون على ثلاثة حالات: الفتح، السكون، حذف النون، اتصاله بالضمائر. (أ) إذا يكون الفعل الأمر المبنيٌّ على الفتح لاتصاله بنون التوكيد ( ثقيلة، و خفيفة)فيكون على حالتين: 1-إذا اتصلت به نون التوكيد (خفيفة) كـ «اكتبنْ» فإعرابه: الفعل الأمر مبنيٌ على الفتح لاتصاله بنون التوكيد، والفاعل: ضمير مستتر تقديره «أنتَ». 2-إذا اتصلت به نون التوكيد (ثقيلة) كـ «اجلسنَّ» فإعرابه: الفعل الأمر مبنيٌ على الفتح لاتصاله بنون التوكيد، والفاعل: ضمير مستتر تقديره «أنتَ». (ب) إذا يكون الفعل الأمر المبنيٌّ على السُّكون فيكون على حالتين: 1-إذا لم يتصل بآخره شيء كـ «اخرجْ» فإعرابه: الفعل الأمر مبنيٌ على السكون الظاهر على آخره، والفاعل: ضمير مستتر تقديره «أنتَ». 1-إذا اتصل بنون النسوة كـ «افتحن» فإعرابه: الفعل الأمر مبنيٌ على السُّكون لاتصاله بنون النسوة ، و النون : ضمير متَّصل مبنيٌّ على الفتح في محلِّ رفع فاعل. (ج) إذا يكون الفعل الأمر مبنيُّ حذف النون فيكون على ثلاثة حالات: 1-إذا اتَّصل به «واو الجماعة» كــ «اخرجوا» فإعرابه: الفعل ا...

فعل مضارع مبنی اعراب، فعل مضارع مبنی کی ترکیب

 الفعل المضارع المبنيٌّ اعلم أنَّ الفعل المضارع المبني يكون نون النسوة و نون التوكيد ( ثقيلة أو خفيفة ): (أ) إذا يكون الفعل المضارع المبنيٌّ على الفتح لاتصاله بنون النسوة فيكون على ثلاثة حالات: 1-إذا كان مرفوعًا كـ«يكتبن» فإعرابه: الفعل المضارع المبنيٌّ على السُّكون لاتصاله بنون النسوة ، و النون : ضمير متَّصل مبنيٌّ على الفتح في محلِّ رفع فاعل. 2-إذا كان منصوبًا كـ« لن يكتبن» فإعرابه: لن: حرف نفيٍّ نصب لا محلٌّ له من الإعراب، والفعل المضارع المبنيٌّ على السُّكون لاتصاله بنون النسوة في محلِّ نصب، و النون : ضمير متَّصل مبنيٌّ على الفتح في محلِّ رفع فاعل. 3-إذا كان مجزومًا كـ« لم يكتبن» فإعرابه: لم: حرف جزم و نفي مبنيٌ على السُّكون لا محلَّ له من الإعراب، الفعل المضارع المبنيٌّ على السُّكون لاتصاله بنون النسوة في محلِّ جزم، والنون: ضمير متَّصل مبنيٌّ على الفتح في محلِّ رفع فاعل. (ب) إذا يكون الفعل المضارع المبنيٌّ على الفتح لاتصاله بنون التوكيد ( خفيفة )فيكون على ثلاثة حالات: 1-إذا كان مرفوعًا كـ«تكتبنْ» فإعرابه: نْ: الفعل المضارع المبنيٌّ على الفتح لاتصاله بنون التوكيد  ( خفيفة ...

فعل مضارع معرب کی اعراب، اعراب فعل مضارع

 الفعل المضارع المعرب اعلم أنَّ الفعل المضارع المنصوب يكون على أربعة حالات: (أ) إذا يكون الفعل المضارع المنصوب على الفتحة الظاهرة فيكون على حالتين: 1-إذا كان صحيح الآخر كـ «لن تكتب» فإعرابه: لن: حرف نفيٍّ نصب لا محلٌّ له من الإعراب، والفعل المضارع المنصوب بــ "لن" وعلامة نصبه الفتحة الظاهرة على آخره لأنَّه صحيح الآخر، والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». 2-إذا كان معتلُّ الآخر فله حالتان: الأول: «و»، والثَّاني: «ي».  فالأول: أي «و» كـ «ليدعوَ» فإعرابه: لام التعليل: حرف جر مبنيٌّ على الكسر لا محلٌّ له من الإعراب، والفعل المضارع المنصوب بــ "لام التعليل" وعلامة نصبه الفتحة الظَّاهرة على الواو، والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». فالثاني: أي «و» كـ «حتى يمشي» فإعرابه: حتى: جر و نصب لا محل له من الإعراب، والفعل المضارع المنصوب بــ )حتى) وعلامة نصبه الفتحة الظَّاهرة على الياء ، والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». (ب) إذا يكون الفعل المضارع منصوبًا على الفتحة المقدَّرة فيكون على حالة واحدة: 1-إذا كان منع من ظهورها الثقل بـ «كي يرضى» فإعرابه: كي: حرف مصدري و نصب مبنيٌّ على السُّكون لا...

فعل مضارع کی اعراب،فعل مضارع کی اعراب کے حالات

 حالات إعراب الفعل المضارع اعلم أنَّ إعراب الفعل المضارع يكون على نوعين:  الأوَّل: المعرب: فيكون على ثلاثة أقسام: المرفوع، المنصوب، والمجزوم.  والثَّاني: المبنيُّ: فيكون على قسمين: نون النسوة، ونون التَّوكيد.                                                                          الفعل المضارع المعرب اعلم أنَّ الفعل المضارع مرفوعٌ يكون على ثلاثة حالات: (أ) إذا يكون الفعل المضارع مرفوعًا على الضمة الظاهرة فيكون على حالة واحدة: 1-إذا كان صحيح الآخر كـ«يكتب» فإعرابه: الفعل المضارع المرفوع وعلامة رفعه الضمة الظاهرة على آخره لأنه صحيح الآخر، والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». (ب) إذا يكون الفعل المضارع مرفوعًا على الضمَّة المقدَّرة فيكون على ثلاثة حالات: 1-إذا كان منع من ظهورها الثقل بـ «و» كـ «يدعو» فإعرابه: الفعل المضارع المرفوع وعلامة رفعه الضمَّة المقدَّرة على آخره منع من ظهورها الثقل ، والفاع...

فعل ماضی کے اعراب، فعل ماضی کے اعراب کے حالات

 حالات إعراب الفعل الماضي اعلم أنَّ إعراب الفعل الماضي يكون مبنيَّا على الفتح أو السُّكون أو الضمِّ. (أ) إذا يكون الفعل الماضي مبنيًّا على الفتح فيكون على أربعة حالاتٍ: 1-إذا لم يتَّصل بآخره شيء كـ«كتب» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتحة الظَّاهرة على آخره والفاعل ضمير مستتر تقديره «هو». 2-إذا اتَّصلت به «تاء التأنيث» كـ«كتبت» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح لاتِّصاله بــ«تاء التأنيث الساكنة» و «التاء» حرف مبنيٌّ على السُّكون لا محلَّ له من الإعراب. 3-إذا اتَّصلت به «الضَّمير» مثلًا «ي» و «نا» و «ه» و «ك» فــ «الياء» كــ «علَّمَنِي» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «ن» نون الوقاية حرف مبنيٌّ على الكسر لا محلَّ له من الإعراب، و «ي» ضمير متَّصل مبنيٌّ على السُّكون في محلِّ النَّصب مفعول به. فــ «نا» كــ «عَلَّمَنا» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «نا» ضمير متَّصل متكلمين مبنيٌّ على السُّكون في محلِّ النَّصب مفعول به. فــ «ه» كــــ «عَلَّمَه» فإعرابه: الفعل الماضي مبنيٌّ على الفتح، و «ه» ضمير متَّصل مبنيٌّ على الضمِّ في محلِّ النصب مفعول به. فــــ «ك» كـ...

شخص کو قبیلے کی طرف منسوب کرنا

 تحریر  اور موضوع کوئی بھی ہو لیکن اسے لکھنے کے لئے  ہر ایک ایک لفظ کو موتیوں کے مانند پرویا جاتا ہے  علماء اسلاف نے بھی تحریر اور کتابت کے لئے ہر اک چیز کو ملحوظ رکھتے تھے اور ان کے لئے بھی اسلوب وضع کئے اور اسی اسلوب کے تحت  ان کی تحریر و کتابت پائی جاتی ہے  مثال کے طور پہ اگر کسی کو بھی  کسی طرف منسوب کرتے تو پہلے  عام کو ملحوظ رکھا کرتے پہر خاص کو بیان فرماتے  مثلا  محدث مصر شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي متوفی  852 هجری نے أُبيّ بن العباس بن سهل بن سعد کے ترجمہ میں کہا "الأنصاري الساعدي"  تقریب التھذیب الرقم 282  یعنی پہلے انصاری  کی طرف نسبت کی جو کہ  قبیلے کی طرف اشارہ ہے جو کہ عام ہے  پہر اس کے شاخ کو ذکر فرمایا جو کہ ساعدی ہے اور  وہ خاص میں سے ہیں   ہاں کبھی کبھار اس کے عکس بھی کیا کرتے تھے یعنی پہلے خاص کو اور پہر عام کو بیان کرتے  اس کی  کچھ مثالیں تقریب التھذیب میں موجود ہیں  والله أعلم بالصواب

کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے، حاشیہ سے حوالہ دینا کیسا، حوالہ کیسے دیں،

 کیا حاشیہ سے حوالہ دینا سہی ہے؟    کتابت کے بہت سے آداب اور قوانین ہیں جو مختلف کتب ورسائل میں موجود ہیں انہیں آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جس کتاب کا حوالہ ذکر کیا جائے تو اصل کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ھوامش اور حاشیوں سے أخذ کیا جائے یہ ہی اصل طریقہ ہے اور ان پہ ہی عمل کیا جاتا ہے   ھوامش اور حاشیوں سے نقل کرکہ اصل کتاب کا حوالہ دینا یہ اسلوب درست نہیں ہے  جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمه الله نے السيف الجلي على ساب النبي ص (120/121) میں الجوهرة النيرة سے عبارت نقل کرتے ہیں وقال في الجوهرة النيرة في ذيل المسألة... سب الشيخين: أن عدم قبول توبته في إسقاط القتل هو المختار للفتوى، وبه أخذ الفقيه «أبو الليث السمرقندي» و«أبو نصر الدبوسي» . انتهى. اور یہی عبارت الجوهرة النيرة میں کچھ یوں ہے ومن سب الشيخين أو طعن فيهما يكفر ويجب قتله ثم إن رجع وتاب وجدد الإسلام هل تقبل توبته أم لا قال الصدر الشهيد لا تقبل توبته وإسلامه وبه أخذ الفقيه أبو الليث السمرقندي وأبو نصر الدبوسي وهو المختار للفتوى. (ج ٢ ص ٢٧٦) اگر کاتب یہ عبارت جو السیف الجلي میں موجود...

محدثین کا اختلاف، جرح و تعديل میں اختلاف کا حل، ایک ہی امام کے ایک راوی میں دو قول

 بسم اللہ الرحمن الرحیم اختلاف المحدثين في الجرح والتعديل الجرح والتعديل ایسا علم ہے جس میں کبھی کبھار ایسی نوعیت آجاتی ہے کہ جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا یے کہ کس عالم کی رائے کو مقدم کیا جائے اورکس عالم کی رائے متاخر کیا جائے کیونکہ دونوں طرف سے ثقہ و متقن امام ہوتے ہیں اورایک ہی راوی کے متعلق مختلف بیان ہوتے ہیں ایک ثقہ تو دوسرا اس کا عکس بتا رہا ہوتا ہے جیسا کہ اس کی مثال اسرائیل بن یونس ہمدانی کوفی اور ابن اسحاق میں واضح دیکھا جا سکتا ہے. یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کسی راوی کے متعلق ائمہ حدیث کا اختلاف ہونا یہ کوئی مضائقہ خیز بات نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف کا ہونا فقہائے کرام کے اختلاف کے ہونے جیسا ہی ہے.  ائمہ حدیث کے اختلاف کے متعلق امام منذری سے سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء. یعنی ان ائمہ کا اختلاف فقھاء کے اختلاف جیسا ہی ہے. (كتاب جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص 83). اور اسی اختلاف کے سبب حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے میں ائمہ کا اختلاف ہوا ہے اور یہ اختلاف درایہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ روایہ کے اعتبار ...

علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل کا حکم

 «علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل» میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کے طرح ہیں ہماری زباں میں بہت سی احادیث مبارکہ رواں دواں ہوتی ہیں ان میں بہت سے صحیحہ اور بہت سے غیر صحیحہ بلکہ بعض تو موضوع ہوتی ہیں ان میں ایک جو ہمارے ہاں بہت ہی مشہور و معروف ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں «علماء امتي كأنبياء بني إسرائيل» میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ یہ حدیث اپنے الفاظ کے اعتبار سے موضوع ہے اور اس متن کو بہت سے علماء کرام نے اپنی کتب میں ذکر کرنے کے بعد کلام کیا ہے انھیں آئمہ میں سے 1 امام ابو عبد الله بدر الدين محمد زركشی شافعی متوفى 794ھ نے اپنی کتاب التذكرة فی الأحاديث المشتهرة (1 / 166) میں اس متن کو ذکر کرنے کے بعد کہا لا يعرف له اصل یعنی اس کی اصل نہیں۔ 2 شمس الدين السخاوي متوفى: 902ھ نے المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة (1 / 459) میں کہا کہ قَالَ شَيْخُنَا ومن قبله الدميري والزركشي: إنه لا أصل له، زاد بعضهم: ولا يعرف في كتاب معتبر. یعنی ہمارے شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی اور ان سے پہے امام دمیری اور امام زرکشی نے کہا ہے کہ ا...

ہر بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے

 بندہ اپنے محاذ کا شیر ہوتا ہے ،یا یوں کہا جائے کہ ہر شیر کا اپنا الگ میدان ہوتا ہے تو بھی مضائقہ خیز نہ ہوگا ، ایسے بہت سے ائمہ گذرے ہیں جو اپنے تخصص کے اعتبار سے بڑے پائے کے مانے جاتے ہیں، اور دوسری طرف اس طرح کا مرتبہ نہ پا سکے انھیں ائمہ میں سے امام عاصم بھی پائے جاتے ہیں قرائت کے شعبہ میں تو اماموں کے بھی امام ہیں  لیکن حدیث کے معاملہ میں اس قدر توجہ حاصل نہ کرسکے  حتی کہ امام ذہبی نے کہا کہ وہ حدیث میں صدوق کا مرتبہ رکھتے ہیں  اور محمد بن اسحاق تو سیرت کے حوالے سے تو امام ہیں لیکن دوسری کی طرف تو حافظ ابن حجر ان کو صدوق کا مرتبہ دے دیا ۔ ہر شخص کی صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اور کسی ایک شخص میں تمام صلاحیتیں پائی جائیں ایسا ہونا مستحیل میں سے لگتا ہے  اور ہمیں اپنی کمزوریوں کو قبول کرنا چاہیے اور ان پر کام کرنا چاہیے بھر حال ہر شیر کا اپنا ہی میدان ہوتا ہے  ہمیں بھی چاہئے کہ ہم شیر بنے اور اپنی صلاحیتوں پہ نظر ڈالیں جہاں اپنا سکہ جمتا نظر آئے وہاں دوڑیں چلیں اور دوسرا میدان کسی اور کے لئے خالی چھوڑیں اس میں ہی اپنی بھلائی ہے

أئمة الجرح والتعديل

 في الجرح يوجد رايان في الراوي الواحد أحيانا  مثلا واحد يقول: ثقة. والثاني: يقول ضعيف. والائمة قسمان:  ١ المشتدد في رأيه۔ ٢ المتوسط في رأيه. مثلا يحي بن معين متشدد في رأيه واحمد بن حنبل متوسط. فائدة: إذا يوجد الاختلاف في حكم قبول رواية الراوي توثيقا وتضعيفا فمن خلاله نحكم على الراوي في قبول الرواية وعدمه.

حدیث من عرف نفسه فقد عرف ربه کا حکم

حدیث  من عرف نفسه فقد عرف ربه کا حکم  آج میں الحاوی للفتاوی کے مطالعے میں مصروف تھا کہ حدیث من عرف نفسه فقد عرف ربه پہ نظر جمی جو ہمارے ہاں  بہت  زیادہ شہرت کی حامل  ہے اس کے متعلق امام جلال الدین سیوطی رحمه الله سے  سوال ہوا تو آپ نے جو جواب ارشاد فرمایا وہ حاضر خدمت ہے  إن هذا الحديث ليس بصحيح، وقد سئل عنه النووي في فتاويه فقال: إنه ليس بثابت، وقال ابن تيمية: موضوع ( الحاوي للفتاوي ج ۲ ص ۲۸۸ )  ترجمہ بیشک یہ حدیث صحیح نہیں  ہے اور ایسا ہی سوال کیا گیا امام نووی رحمه الله سے تو انہوں نے فرما یا کہ یہ حدیث ثابت نہیں اور ابن تیمیہ نے کہا کہ (یہ حدیث)  موضوع ہے 

مواقع النجوم

 #مواقع_النجوم_کا_مختصر_تعارف آج میں آپ کی خدمت میں  جس کتاب  مختصر تعارف پیش کر رہا ہوں وہ کتاب بڑے شان والی ہے  اور کیوں نہ ہو کہ ان کے مصنف بھی تو کمال والے ہیں  جسے صوفیاء  ادب سے شیخ اکبر  کہتے ہیں    اور وہ ہیں  #شیخ_محى_الدین_محمد_بن_على_بن_محمد_بن_العربی_الطائى_الحاتمى_رحمه_الله یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شیخ اکبر رحمه الله   تصانیف کثیره  کے مالک ہیں  ان میں سے ایک کتاب  #مواقع_النجوم بھی ہے    کتاب مذکور میں  تین مراتب ہیں  پہلا #العناية ہے جو توفیق ہے دوسرا #هداية ہے جو علم تحقیق ہے  تیسرا #الولاية ہے جو مقام صدیق کی طرف پہنچاتا ہے  یہ ہے ان کا مختصر تعارف  ان شاء اللہ عزوجل جلد ہی مکمل خلاصہ بہی عرض کرنے کی نیت رکھتا ہوں دعا فرمائیں اللہ تعالی لکھنے کی سعادت عطا فرمائے  عبدالمصطفی_العجمی